BTM – Bridge to Muslims

سید زبیر کا روحانی سفر

میرا تعلق سید گھرانے سے تھا اور 16 سال پہلے ایک معجزے نیں میری زندگی اور سوچ کا رخ بلکل نئی جانب موڑ دیا۔ میری کزن خد یجہ جسکی نئی نئی ابھی شادی ہوئی تھی وہ کچھ بیمار رہنے لگی، ڈاکٹد کے ٹیسٹ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اسکے بچہ دانی میں کینسر ہے اور اسکا فورا علاج کرنا ضروری تھا۔ مگر ٹاکٹر نے یہ بھی مطلع کیا تھا کہ اسکے بچنے کے صرف 100 فیصد امکان ہیں، اگر بچ بھی گئی تو اسکی کبھی بھی اولاد نہی ہو سکتی۔

مرتے کیا نہی کرتے ہم نے اسکے علاج کرنے کی ڈاکٹر کو اجازت دی، اسی دوران میرے ایک مسیحی دوست نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ برا نا مانیں تو میری والدہ آکر آپکی کزن کیلئے دعا کرنا چاہیں گی۔ ایک مسلم ہونے کے ناطے میں صاف جواب دیا کہ ہم مسلم تم سے دعا کیوں کروائیں۔ یہ سنکر دوست خاموش ہو گیا مگر کچھ دن بعد پھر یہی کہا اور میرا جواب بھی وہی تھا۔ تقریبا 4 دفعہ کے بعد جب کزن کی صحت میں کوئی بہتری نہی آئی اور علاج کے دن قریب آرہے تھے تو میں نے اس سے جان چھڑانے کیلئے کہ دیا کہ ہاں جاکر دعا کر لو۔

جب اپنی کزن سے پوچھا تو اس نے فورا حامی بھر دی کہ کرنے دو دعا ، نا جانے کس کی دعا سے شفا مل جائے۔ پھر دوست کی والدہ آئیں اور میری کزن انکے ساتھ ہسپتال کے کونے میں بیٹھ گئیں اور دعا کری۔ دعا کے بعد کزن نے انکا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر مجھے زندگی ملی تو میں آپکے لئے کپڑے اور مٹھائی خریدونگی۔ مگر انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ نہی چاہئے مگر جب خدا شفا دے تو بس ایک بار آکر کلیسا میں اس بات کی گواہی دے دینا کہ خدا نے کیا معجزہ کیا ہے۔ میری کزن بلکل راضی ہوئی اور عہد کیا۔ میں یہ تمام گفتگو کو سن رہا تھا۔

کزن کا آپریشن ہوا اور خدا نے اسکو کینسر سے معجزانہ طور پر شفا عطا کری اور پھر اسکے گھر 2 بچے پیدا ہوئے بغیر بچہ دانی کے۔ اب ٹھیک ہونے کے بعد جب وہ گھر آئی تو میں نے اسکو اس بات کی گواہی دینے کا یاد کرایا مگر وہ اس پر اب راجی نہی ہوئی۔ میں ایک کٹر مسلم ہونے کے ناطے اس بات پر یقین ہی نہی کر رہا تھا مگر جب میں نے وہ معجزے دیکھے تو میری ساری کی ساری سوچ مسیحیت اور یسوع المسیح کے بارے میں بدلنے لگی۔ میں نے کزن سے کہا کہ تمکو اپنا وعدی پورا کرنا چاہئے اور ایک بار کیلسا جاکر گواہی دو مگر وہ اور اسکا شوہر دونوں متفق نا ہوئے۔ اس وقت میں نے ان سے کہا کہ اگر تم نہی گئے تو اس گواہی کو میں لیکر نکلوں گا اور ہر جگہ اسکو پھیلائونگا۔

اسکے بعد میں نے کلام مقدس کا مطالئہ شروع کیا اور مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ خدا کا سچا کلام ہے۔ میں نے مسیح کو اپنا نجات دہندہ قبول کیا اور ابھی تک اسکی گواہی کو در در تک جہاں موقع ملے بتاتا ہوں۔

->
Scroll to Top